شفا رہائی مانگتی ہے
توصیف احمدلیے اپنی جیبوں میں ہجر احمد، مبتلاہوں اسی کشمکش میں
ہے جس گلی میں جمیل مقتل ، اسی گلی ہے طبیب خانہ
شام کی سنہری کرنیں ہر شے کو سنہرے حصار میں قید کرنے لگیں۔ دارلحکومت کے سب سے بڑے شفا خانے کی دیوار کی بیرونی جانب ایک بیماری اگنے لگی۔ کسان جب اپنے کھیت میں فصل کے علاوہ کوئی جڑی بوٹی دیکھتا ہے تو اسے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔۔۔!
یہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہے۔ شفا خانے کی دیوار کے ساتھ ساتھ اگنے والی اس بیماری سے ارباب ِ اختیار بخوبی واقف ہیں، لیکن پریشان نہیں ہیں۔ دیوار کے اندر لاتعداد بیماریوں کا علاج خوش اسلوبی سے کیا جاتا ہے لیکن دیوار کے باہر کی بیماری جو قابل علاج ہونے کے باوجود لاعلاج ٹھہرائی جا چکی ہے۔انسانی جسم کو نیست و نابود کر دینے والی لاتعداد بیماریاں ہیں، اسی طرح معاشرے کی چند بیماریاں ایسی ہیں جو دھیرے دھیرے دیمک کی طرح معا شرے کو چاٹ جاتی ہیں۔ بر وقت علاج نہ ہونے پر معذوری یقینی ہے۔
اندھیرا پھیل چکا ہے۔شفا خانے کی دیوار پہ لگے قمقمے جل اٹھے ہیں۔ روشنیوں کے جلتے ہی فٹ پاتھ پہ جسم جلنے بجھنے لگے ہیں۔ کچھ مریض جو علاج کی غرض سے شفا خانے کی دیوار کے اندر گئے ہیں اور کچھ باہر کھڑے علاج کے منتظر ہیں۔بولیاں لگنے لگی ہیں، ٹیکسیاں اور رنگ برنگی کاریں رک رک کر چلنے لگی ہیں۔ خوشنما اور خوشبو دار جسم بکنے کے لیے حرکت کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ یہاں کون مریض ہے اور کون مسیحا۔۔۔!
یہ بے نظیر بھٹو ہسپتال ہے۔ جو مصروف ترین شاہراہ مری روڈ پہ واقع ہے۔ جس کی دیوار وہی دیوار ہے جس کے اندر بیماریوں کا علاج ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔۔۔نہیں علم لیکن یہ علم ضرور ہے کہ دیوار کے باہر اگنے والی اس بیماری کا علاج نہیں ہوتا۔یہاں قانون کے ساتھ ساتھ جسم و جان کے محافظ بھی موجود ہیں لیکن یہاں بھی مری روڈ سے گزرتی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی طرح جلتی ہوئی کچھ ہستیاں ہیں۔ جو جلنے اور بجھ جانے کا اشارہ دیتی ہیں۔ کون جانے کہ اس جل کر بجھنا اور بجھ کر جل جانے کے عمل میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔داستانوں کی داستانیں جنم لے لیتی ہیں۔ اس چھوٹے سے لمحے میں معاشرہ ایک عمر گزار جاتا ہے۔
یہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال ہے۔ جسے عام لوگوں میں مہنگا ترین ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔یہاں بھی دیوار کے اندر بیماریوں کے علاج کی خاطر لاتعداد طبیب مصروف عمل ہیں۔ لیکن دیوار کے باہر ذرا سا دور۔۔۔ وہی بیماری اپنے مہنگے ترین روپ میں بہر حال موجود ہے۔ لیکن یہاں قیمتوں کا فرق ہے۔ یہاں جلنے اور بجھنے کے عمل کے پیچھے کچھ اور طاقتیں بھی سر گرم ہیں۔
یہ فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال ہے۔جس کے ساتھ ایک سڑک ڈی ایچ اے کو نکلتی ہے۔ چونکہ میری ایک کہانی یہاں ایک سال مقیم رہی اس لیے یہاں کے چپے چپے سے بخوبی واقف ہوں۔ یہاں بھی وہی بیماری کبھی کبھی اپنے مہنگے ترین روپ میں موجود ہوتی ہے۔
یہ قائد اعظم انٹرنیشنل ہسپتال ہے۔بلند عمارت کی خو بصورت چاردیواری کے باہر موجود دوڑتے پھرتے معاشرے میں بظاہر تو کوئی بیماری نظر نہیں آتی، لیکن ذرا تصویر کو ”زوم ان“ کر کے دیکھاجائے تو چاردیواری کے باہر وقفے وقفے سے رکتی گاڑیاں اور نزدیک بس سٹاپ کے گرد یہ بیماری اپنے پورے عروج پہ نظر آتی ہے۔شب کے فانی اندھیروں میں چمکتا دمکتا ہوا یہ ہسپتال اس قدر روشنی نہیں چھوڑتا کہ فٹ پاتھ بھی روشن کر دے۔تاریکی میں ڈوبا ہوا کونہ محض کونہ نہیں ہے۔۔۔اس بیماری کا کا اوڑھنا بچھونا بھی ہے۔
یوں تو ترنول سے روات اور چکری سے فیض آباد، یعنی ایک کونے سے دوسرے کونے تک اس بیماری کی ہر اس جگہ کو اچھی طرح جانتا اور پہچانتا ہوں جہاں یہ پیدا ہوتی ہے، لیکن صرف شفا خانوں کا ذکر اس لیے ضروری تھا کیونکہ یہ بیماری ہے۔ لاعلاج نہیں ہے لیکن معاشرے کی اکائی اسے لاعلاج کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہے۔ہمارے راہنما کرسیوں کی تلاش میں لاشیں بچھانے میں مصروف ہیں۔ انہیں کرسیاں کس لکڑی سے بنتی ہیں اس کا علم تو ہے، لیکن اس لکڑی کو کیسی دیمک کب اور کہاں چاٹتی ہے یہ علم نہیں ہے۔ ہم جیسے قلم سے کھیلنے والے لوگ کوئی ایک آدھ کہانی لکھ کر کھڑکی بند کر دیتے ہیں اور فرض ادا ہو جانے کا احساس لیے سو جاتے ہیں۔
جسم کے کسی عضو پہ کوئی بیماری قابض ہو جائے تو اسے کاٹ کر الگ کر دینا علاج نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسیحا وہی ہے جو اس عضو پہ قابض بیماری کا سر قلم کر دے۔ بعض بیماریوں کا علاج باقاعدہ ایک خاص مدت کے لیے ہوتا ہے۔ اس مدت میں پرہیز انتہائی ضروری ہے۔اس ایک مدت میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا بھی علاج کے زمرے میں آتا ہے۔ معاشرے پہ قابض اس بیماری کا علاج یہ نہیں کہ ان ہستیوں کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جائے۔ ان کے پیچھے کارفرما حالات و واقعات یا کوئی طاقتیں ہیں تو ان کی سرکوبی لازم ہے۔سفر کر کے دیکھا جائے تو یقین ہوتا ہے کہ شفا قید کر دی گئی ہے۔ زندان کے باہر کھڑے پہریدار کبھی نہیں چاہتے کہ شفا کو رہائی دی جائے۔ کیونکہ شفا رہا کر دی گئی تو پہریدار ناکارہ ہو جائیں گے۔ چونکہ ہمارے وجود ایک معمول کے تابع ہیں اس لیے رنگین سکرینوں سے جھانکتی خبریں اور تجزیے ہمارے علم اور سوچ پہ حاوی ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی خاص شعاؤں کے ذریعے ہمارے ذہن صاف کر دیے جاتے ہیں۔ لکھنے والا صاف چادروں پہ جو چاہے لکھتا رہے۔۔۔!
آپ سفر کر کے دیکھ لیجیے، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ شفا رہائی مانگتی ہے۔
اداس آنکھیں ضعیف پلکوں سے پوچھتی ہیں غریب خانہ
کہاں بسا ہے وہ شخص پاگل، کہاں ہے اس کا عجیب خانہ
تیری گود خالی کبھی نہیں، ذرا دیکھ پھٹ کر یہاں زمیں
میرا راہنما تھا یہیں کہیں، یہیں کہیں تھا نقیب خانہ
لیے اپنی جیبوں میں ہجر احمد، مبتلاہوں اسی کشمکش میں
ہے جس گلی میں جمیل مقتل ، اسی گلی ہے طبیب خانہ

زبردست۔۔۔بہت خوب
ReplyDelete