Tuesday, 29 August 2017

مہر آباد کے کھنڈر از توصیف احمد mehr abad kay khandar by touseef ahmed


مہر آباد کے کھنڈر 
توصیف احمد
قسط نمبر 5

"میں تھک گیا ہوں بابا‫.."
میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پہ لیٹا تو سکون کی لہریں وجود میں گردش کرنے لگی تھیں.
بابا شا ہو نے ایک قہقہہ لگایا اور میرے اوپر جھک گیا...!
"اوئے مسافرا...پہلے یہ تو بتا کہ آیا کہاں سے ہے... رات کہاں گزاری ہے... تجھے ڈر نہیں لگتا یہاں... اوئے مہرآباد کے جنوں کا پتہ نہیں ہے تجھے..."
میں ہلکا سا مسکرایا "ناشتہ ملے گا‫... پراٹھا بچا ہوا ہے کوئی..."
وہ واپس مڑا تو میں نے آواز دی "مہرآباد کے جنوں کو میرا پتہ نہیں ہے..."
ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی. بیری کے درخت پہ چڑیوں کی آمدورفت جاری تھی. چڑیوں کی چوں چوں میں کبھی کبھی کسی اور پرندے کی آواز بھی شامل ہو جاتی تھی. لیکن محسوس یہی ہو رہا تھا جیسے اس ہوٹل کے ارد گرد....دور تلک خاموشی چھا گئی تھی. میں یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتا تھا‫.‫‫..!
"لے بھئی‫‫‫...کیک رس کھا لے... پراٹھا تو اب ہے نہیں... نصیب نصیب کی بات ہے پترا...کسی کے نصیب میں پراٹھا اور کسی کے کیک رس...کبھی عشق معشوقی کی ہے کیا؟"
میرے حلق سے ایک قہقہہ وا ہوا "ہیں... عشق معشوقی... یہ کیا ہے... ادھر شہر میں اسے فلرٹ کہتے ہیں... یا پھر دوستی‫... یا پھر وہ انگریزی والا حرف ہے نا... لو...وہ‫... ویسے ادھر مہرآباد میں عشق معشوقی ہی کہتے ہیں؟"
وہ مسکرا دیا "کسی سیانے کی اولاد ہے پترا‫‫‫... بڑی بات گول کی ہے تم نے... اسے ہی کہتے ہیں جو تو سمجھا ہے... ادھر وہ دلجان تھا... عشق معشوقی میں اس نے مہروں کا جینا حرام کر دیا تھا‫‫‫‫..."
میں نے کہا "آپ کو پتہ نہیں ہے چاچا‫... اسے محبت کہتے ہیں"
وہ حیران ہوا "اچھا... تو محبت کا پتہ ہے تجھے... اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ دلجان کا بھی پتہ ہے..."
"ہاں... پتہ چلا تھا...بد قسمت کے ہاتھ کی چائے میں بڑا ذائقہ ہے بابا..."
"میں بڑا پڑھا لکھا سمجھا تھا تجھے‫‫‫...نکلا نا نرا ان پڑھ... بدقسمت کہہ کر جدائی شودی کی بے عزتی مت کر‫‫‫‫‫‫‫... برا لگے تو سر پہ چڑھ جاتی ہے...بس یہی بات ہے نا...میں سمجھ گیا ہوں کہ تو نے رات کہاں گزاری اور دلجان کا پتہ کہاں سے لے کرآیا ہے..."
"یہ قاصد مہر حکیم سے کب نکلا‫..."
حوالات سے نکل کر دلجان کچھ عرصہ تو روپوش رہا...پھر ایک دن اس نے مہر حکیم کے منشی کا راستہ روک لیا.قاصد مفرور منشی شیر کے ساتھ ہی تھا‫.اس سے پہلے اس نے دلجان کا نام سنا تھا لیکن یوں پالا نہیں پڑا تھا‫‫. دلجان تو چلا گیا...!
لیکن وہ دلجان پہ حیران تھا جو مہر حکیم کی ناک تک آن پہنچا تھا‫.لوگوں کے خیال میں دلجان کی ساری مردانگی بس اس دن حوالات میں ختم ہو گئی تھی جب اس نے مہر حکیم کے پیروں میں گر کر معافی مانگی تھی. قاصد کے نقطہ نظر سے بھی مہر حکیم نے بہت بڑی بھول کر دی تھی. 
منشی شیر نے جب مہر حکیم کو اس تمام واقعے کی روداد سنائی تو مہر حکیم نے اپنے خاص کارندے خان محمد کو فوراً دلجان کا قتل کرنے کو کہہ دیا‫.
لیکن یہ مہر حکیم کی بھول تھی... کیونکہ دلجان کے پاس اب کھونے کےلیے محض اس کے وجود کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا.دوسری جانب مہر حکیم نے ابھی تک کچھ نہیں کھویا تھا‫. خان محمد کی لاش واپس آئی تو مہر حکیم نے ہمیشہ کی طرح پولیس کا سہارا لیا. پولیس نے دلجان کے نام کے آگے مفرور لگایا اور اس کے پیچھے ہی ہو لی. جا بجا چھاپے‫‫‫‫‫‫‫‫...لیکن جواب ندارد‫‫‫...!‫
"قاصد دلجان کے ہتھے کیسے چڑھا بابا...."‫
"ہتھے تو اس کے ہی چڑھنا تھا نا پاگل...ورنہ مہر حکیم نے اسے قتل کروا دینا تھا"
میں حیرانی سے بولا "قتل.....؟؟؟"
وہ مسکرایا "ظاہر ہے بھئی وہ چھپ چھپ کر دلجان سے ملاقات کرے گا تو...مہر حکیم اسے ریوڑیاں تو نہیں بخشے گا نا..‫دلجان کی اکھ لڑ گئی تھی پتر"
شاہو بابا کا مطلب تھا کہ دلجان اپنا دل نظیمہ کے دروازے پہ چھوڑ آیا تھا. ایک دن رات کے کسی پہر قاصد نے نظیمہ کے در پر کسی کو جھکا ہوا دیکھا. وہ رات کے اس وقت مہر حکیم کی حویلی سے واپس آ رہا تھا.نزدیک جا کر دیکھا تو علم میں اضافہ ہوا کہ محبت ہو جائے تو محبوب کے در پہ جھک جانا محبت ہی ہے...!‫
وہ دلجان تھا...اسے جب علم ہوا تو اس نے بندوق سیدھی کر لی...! وہ نظیمہ کے در کی خاک اٹھا کر ماتھے پہ مل رہا تھا‫.وہیں اسے علم ہوا کہ محبوب کے در پہ آیا ہوا عاشق دراصل موت کے دروازے پہ ہوتا ہے...!
اسی دن سے وہ دونوں ساتھ مل گئے...!
قاصد کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا...جبکہ گاؤں کے کونے پہ ہر روز شام سے جھگڑنے والی دعا کا سفر فی الحال شروع نہیں ہوا تھا...!
" لے بھئی مسافرا‫‫‫‫...اج تجھے میں نے مہرآباد کی چنگی بھلی تاریخ بتا دی ہے... اتنے پہ گزارا ہو جاوے گا نا تیرا؟"
"ہاں... ایک دن نکل جائے گا...میں کل ناشتہ ادھر ہی کروں گا...میرے حصے کا پراٹھا بس پڑا رہے... بھلے ٹھنڈا ہو جائے...میں آکر کھا لوں گا بابا...."
ہوا کے نرم جھونکوں میں بیری کے تازہ بوبیری کے تازہ بوروں کی خوشبو بھی شامل تھی. جیسے دور کہیں کسی بیری سے بور ٹوٹ ٹوٹ کر اپنی خوشبو ہواؤں میں شامل کیے جا رہے تھے. میری معلومات کے مطابق یہ وہی موسم تھا...جب قاصد اور دعا کے درمیان سفر شروع ہوا تھا...!

(جاری ہے)

Composed and Cover by Al-Ain


Saturday, 5 August 2017

مہر آباد کے کھنڈر "قسط نمبر 4" از توصیف احمد

Meher Abad kay Khandar
مہر آباد کے کھنڈر
توصیف احمد
قسط نمبر 4
رات وقت کا زہر پیتے ہوئے تقریباً بوڑھی ہو چکی تھی‫...!
اور میں وہیں قاصد کے اجڑے ہوئے آنگن میں بیٹھا تھا‫. مغرب کی اذان کے بعد ایک بوڑھا شخص مجھ سے ملنے آیا تھا. وہ دعا کا باپ تھا‫...!‫
دعا نے اسے بتایا تھا کہ یہاں اس آنگن میں کوئی مہمان آکر ٹھہر گیا ہے‫.
"لے باؤ‫‫‫... روٹی پانی لے کر آیا ہوں... ویسے اس گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے میرا،،،لیکن مہمان تو بس مہمان ہوتا ہے نا،،،!"
" ارے بابا خواہ مخواہ تکلف کیا...مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ویران ہو گیا ہو گا...میں بس ایسے ہی پھرتا رہتا ہوں"
وہ مسکرا دیا " ککھ نہیں رہا جی ادھر‫... کہنے کو تو میرا ہمسایہ ہے لیکن ہے دشمن... زندہ ہے ابھی...لوگ اسے قاصد مفرور کے نام سے جانتے ہیں..."
"لیکن بابا...دشمنی آخر کس کام کی ہے...بچا تو اب مہر آباد میں ککھ نہیں ہے..."
اس نے قہقہہ لگایا "اجنبی ہو نا... اسی لیے کہتے ہو کہ ککھ نہیں رہا...حالانکہ کوئی اکھ بھر کر دیکھے تو سہی... مہرآباد اب بھی آباد ہے اسی طرح‫‫‫..‫.دشمنی ہے بھئی... میں اسے اچھا نہیں سمجھتا... لیکن اس نے جو حشر مہروں کا کیا ہے اس کی اسے داد دیتا ہوں... مہر حکیم سمجھتا تھا کہ اس کے نام سے پہلے مہر لگا ہے تو مہرآباد اس کا ہے...حالانکہ مہرآباد بسانے والے کا نام مہر خان تھا...یہ کسی خاص قوم کا نہیں تھا...بس کچھ ناسمجھ لوگ آگئے اور بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا..."
"مہر حکیم سے آپ کا لینا دینا تھا؟"‫
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا" میرا کیوں لینا دینا ہو گا بھلا‫... چل روٹی ٹکر کھا... بڑے ثواب کا موقع دیا ہے مسافرا‫‫‫... خالی برتن میرے دروازے پہ چھوڑ جانا بے شک... کوشش کرو کہ یہاں مت رہو... ویرانے انسانوں کےلیے ہوتے ہیں... جن بھوتوں کے لیے سمجھو ویرانہ تو شہر جیسا ہوتا ہے نا..."
میں نے کھانا ختم کیا اور خالی برتن اس کے دروازے پہ چھوڑ دیے.
میں نے دعا کے سامنے قاصد مفرور کا نام لیا تھا. مجھے یقین تھا وہ دوبارہ آئے گی.وہی ہوا‫‫‫...قاصد مفرور کی آنکھوں میں بسنے والی مورت دوبارہ آگئی‫.
"بڑا ہنستا بستا سا علاقہ تھا‫‫‫،،،وہ آوارہ لوفر تھا،،، مہر حکیم کے ہاں غنڈہ گردی کی ملازمت کرتا تھا،،، دیکھو تو ہے نا حیران ہونے والی بات،،، مجھے کسی نے بتایا بھی تھا کہ شہر میں غنڈوں کی بھرتیاں بھی ہوتی ہیں،،،شہر کے سارے رواج ادھر بھی آ گئے ہیں،،،"
"وہ یاد آتا ہے بہت؟"
میں نے کہا تو وہ ہنس دی. جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو.
"ہنسنے والی بات کی ہے تم نے،،،چائے پیو گے،،، "
"تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھ سے؟....یعنی رات کے اس وقت تم اکیلی یہاں ہو،،،"
وہ مسکرائی اور پھر اس نے آنچل کے نیچے سے پستول باہر نکال لیا.
پھر کہنے لگی"اب تم ذرا ڈرانے والی کوئی حرکت تو کرو...!"
"بالکل قاصد پہ گئی ہو"
"نہیں... وہ مجھ پہ گیا ہے..."
"بیٹھو یہاں مہمان جی‫‫‫‫‫‫‫‫‫... چائے لاتی ہوں میں"
وہ گئی تو میں اس کی دیدہ دلیری پہ رشک کرنے لگا‫. یہ بہادری اسے وراثت میں ملی تھی‫. قاصد کی ساری جائیداد کی وہ اکلوتی وارث تھی. اورقاصد کی جائیداد میں ہجر کے علاوہ بہادری تھی.
میں قاصد کے متعلق سوچنے لگا کہ وہ مہر حکیم کا غنڈہ تھا‫...تو دعا کی دعاؤں میں کیسے آگیا‫‫‫....میں کہانی کھوجتے ہوئے ہمیشہ بے خوف ہو جاتا تھا لیکن دعا سے کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہیں تھا‫.‫...!‫
وہ کچھ دیر بعد چائے لے آئی.
"پیو گے تو گھر کی بھول جاؤ گے...!"
اس نے کہا تو میں مسکرا دیا "گھر کی پی کر کوئی گھر کی نہیں بھولتا پاگل لڑکی...اک بات تو بتاؤ یہ پستول چلانی کس نے سکھائی تمہیں؟"
"شاید دو سال پہلے‫‫‫...جب مہر حکیم نے حملہ کروایا تھا شاداب پور کے دل جان مفرور پر‫‫‫... اس وقت..."
"شاداب پور کا دل جان مفرور‫...اور مہر آباد کا مہر حکیم‫... یہ کیسا تعلق ہوا بھلا"
وہ مسکرا دی" شہر کے رہنے والے تھوڑے کم سمجھدار ہوتے ہیں بھائی جی... تم بھی ویسے ہی ہو...شاداب پور کے دل جان کے لیے مہرآباد ہی سب کچھ تھا...اس کا دل رہتا تھا یہاں...مطلب نظیمہ... وہ رہتی تھی..."
"بس اب تہہ تک پہنچ گیا میں... ہمم‫‫‫... تو پھر؟"
"تو پھر آپ اجنبی ہو... باتیں اگلوا رہے ہو مجھ سے..."
"تمہیں اگر لگتا ہے کہ میں باتیں اگلوا رہا ہوں تو مت بتاؤ نا‫‫‫‫‫‫...لیکن میں قاصد سے ملوں گا تو پوچھ لوں گا کہ دل جان کون تھا بھئی...ظاہر ہے مفرور ہے تو اسے جانتا تو ہو گا نا..‫."
وہ اٹھی اور جانے لگی "اس سے ملو تو یہ بھی پوچھنا کہ کھانا کھاتا ہے... بد نصیب کو بھنڈیاں بہت پسند تھیں"
میں مسکرا دیا " بدنصیب مت کہو اسے...اس کے نصیب میں عمر بھر کا ہجر ہے...ہاں ویسے بدنصیب کے نصیب میں یہ چائے نہیں ہے..."
"میں چلتی ہوں بھائی... ناشتہ کرو گے صبح یا چلے جاؤ گے؟"
"ہمم... پتہ نہیں...لیکن لگتا ہے ناشتہ نہیں کروں گا..."
وہ جاتے جاتے رکی. شاید کچھ کہنا چاہتی تھی...لیکن وہ کہہ نہیں سکی اور چلی گئی.
مہر حکیم اور شاداب پور کے دل جان مفرور کا تعلق بہت پرانا تھا. دونوں کی عمروں میں محض چند گھنٹوں کا ہی فرق تھا‫. لیکن دوڑ دلجان کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی تھی.
دونوں کے درمیان دشمنی زمین کی تھی.مہر حکیم نے دھوکے سے دلجان کو پھنسایا اور وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا‫‫.مہر حکیم کے کارندے جب اس کے دروازے پہ تھے تو اس وقت وہ تھانے میں تھا۔ وہیں اسے خبر ملی کہ مہر حکیم کے کارندوں نے اس کی ماں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ وہ یہ غم اس لیے سہہ گیا تھا کیو نکہ وہ بس غم سہہ جاتا تھا۔ 
مہر حکیم طاقت کے نشے میں اس سے ملنے تھانے چلا آیا جہاں وہ اس کی بے بسی پہ ہنستا رہا تھا۔ دلجان نے اس سے وہیں معافی مانگی اور رہا کر دینے کا کہا۔ اس کے ساتھ ہی زمین اسے دے دی۔ بس یہی مہر حکیم کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ دلجان کو سمجھ نہیں سکا۔۔۔!
رات بیت چکی تھی۔۔۔!
میں نے دعا کو کہا تھا کہ میں ناشتہ یہاں نہیں کروں گا۔ فجر کی اذان میں ابھی کافی وقت تھا۔ میں بجھی ہوئی شمع کی مانند جیسے آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی کہانی میرے اندر دم توڑنے لگی تھی۔ لیکن۔۔۔میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔ میں باہر نکلا۔۔میرا رخ شاہو بابا کے ہوٹل کی جانب تھا۔
جاری ہے
cover & composed by: Al-AIN

Tuesday, 1 August 2017

مہر آباد کے کھنڈر (قسط نمبر 3) از توصیف احمد

مہر آباد کے کھنڈر
توصیف احمد
قسط نمبر 3‫

آنکھ کھلی تو کسی کو گنگناتا محسوس کیا‫ ذرا سا اٹھ کر دیکھا تو بابا سامنے بیٹھا پیالیاں دھوتا ہوا گنگنا رہا تھا‫‫،
"اکھ کھل گئی ہے تیری؟"
میں اٹھ کر بیٹھ گیا، موبائل دیکھا تو سوا آٹھ بج رہے تھے.
میں نے ادھ کھلی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا‫، وہی ویران سڑک اور دور تلک پھیلے ہوئے اجڑے ہوئے کھیت اور ایک یہ آباد ہوٹل تھا.
اس نے قہقہہ لگایا "ایک دن میں آیا تو یہاں عاقو مجرے والے کو سوتے ہوئے دیکھا‫‫‫،،،پتہ ہے اسے مجرے والا کیوں کہتے ہیں،،،بس ایک دن کہیں شادی تھی،،،طوائفیں ناچ رہی تھیں تو وہ بھی شامل ہو گیا،،، پتہ نہیں کس مرض میں وہ جی کھول کر ناچ رہا تھا،،، اس دن اس کے پیروں تلے قائداعظم کی تصویر والے نوٹ آئے تو وہ بڑا ہنسا تھا،،، اب وہ ہر مجرے میں طوائفوں کے ساتھ جاتا ہے،،، وہاں بس زمین سے نوٹ اٹھانے کی ڈیوٹی کرتا ہے،،،،بدلے میں اسے آٹھ ہزار روپے مہینہ کی تنخواہ اور خوراک ملتی ہے،،،"
"میں نے دیکھا ہے بابا،،، نوٹوں کو زمین پہ گرتے ہوئے دیکھا ہے"
وہ مسکرا دیا " نہیں... تو نے نوٹ اٹھاتا ہوا عاقو مجرے والا نہیں دیکھا پھر...اس دن وہ ہنسا نہیں تھا بلکہ اندر ہی اندر رویا تھا،،،ہنسا تو وہ ان پہ تھا جو نوٹ پھینک رہے تھے...اوئے چل اٹھ جا،،،دیکھ میری بیوی نے پراٹھے بھیجے ہیں،،، بھلی کو کم کم نظر آتا ہے لیکن پراٹھے بنا لیتی ہے،،، منہ ہاتھ دھو کر آ،،،"
میرے ذہن میں عاقو مجرے والا بیٹھ گیا تھا،‫
مجھے سوچتا دیکھ کر وہ میرے پاس آ بیٹھا "عاقو مجرے والا شہر رہتا ہے اب،،، کبھی جا کر اس سے بھی ملنا،،، پتہ دوں گا،،،"
کھانے کے دوران اس نے مجھے عاقو مجرے والے کا پتہ بتایا پھر اچانک کہنے لگا، 
"شہر کا بس اتنا تجربہ ہی کافی ہے کہ وہاں سے کبھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی،،،حالانکہ کل حساب کتاب کر کے دیکھ لو تو ایک بار گیا ہوں شہر،،،میرے مہرآباد گاؤں 
کی ہوا کے آگے تیرے شہر کے پنکھے کولر ذرا بھی نہیں ہیں،،،میرے مہرآباد میں قاصد رہتا ہے مسافر،،،،تیرے شہر میں وہ رہتے ہیں جنہوں نے قاصد چھورے کو قاصد مفرور بنایا ہے،،،تیرے شہر میں وہ خون خوار بھیڑیے رہتے ہیں جن کے منہ پہ دعا کے گھر کی مٹی لگی ہے،،، دوبارہ شہر کی خوبی مت بیان کرنا،،، بس اک خوبی ہے کہ ساجو یار رہتا ہے وہاں،،،پتہ نہیں وہ عشق مارا کیوں رہتا ہے وہاں"
میں مسکرا دیا "اگر دل سے پوچھو تو بابا،،،شہر میں دم گھٹتا ہے میرا،،،"
اس نے چائے کی پیالی میرے سامنے رکھی "چاہ پی،،،بات جب محبت کی کرنی ہو تو چاہ بڑی ضروری ہوتی ہے،،،"
"محبت کی بات؟"
"ہاں محبت کی بات...بات جب عاقو مجرے والے کی ہو تو اسے جاننے والا سمجھ جاتا ہے کہ بات محبت کی ہو رہی ہے...شودے کو ہجر میں رہنا بسنا آگیا ہے...اپنی جوانی میں اس نے شہر والی سے دل لگایا تو میں نے اسے بتایا تھا کہ شہر سے گاؤں کی سڑک پر بری بری خبریں سفر کرتی ہیں...نہ کر عاقو....نہ کر...لیکن چھوڑ....چاہ پی... پراٹھے مزیدار ہیں نا"
---------------------------------------------------------------------------

شام دھیرے دھیرے اپنی منزل کو دوڑی جا رہی تھی‫، 
اس سر‫‫مئی خاموشی میں چڑیوں اور جھینگروں کی آواز ہی تھی جو نمایاں تھی‫، میں اس کے انتظار میں تھا جو ہر شام کے ساتھ اس آنگن میں اترتی تھی‫، میں کھلے صحن میں بیٹھ گیا تھا‫-
میں نے جناح کی تصویر والے نوٹوں کو سر سے پاؤں میں گرتے ہوئے ایک بار نہیں...لاتعداد مرتبہ دیکھا تھا. نوٹ پہ بنی ہوئی کوئی بھی تصویر اس ملک کے باسیوں کےلیے عزت و احترام کی وجہ ہوتی ہے. لیکن سر سے پاؤں تک اور پھر لگاتار پیروں تلے کچلنے کےبعد تصویر جب جیب کا رخ کرتی ہے تو وہ جیب رکھنے والے لوگوں کے چہرے انتہائی مسخ دکھائی دیتے ہیں‫. 
نوٹ چاہے طوائف کے پاؤں میں پھینکے جائیں یا قصیدہ خواں کے پیروں میں...بے حرمتی بس بے حرمتی کہلاتی ہے. جسے دل میں رکھنا ہو اسے پیروں میں روندنے کے بعد خودکشی لازم ہو جاتی ہے‫.
میں جوں جوں عاقو مجرے والے کو سوچتا جا رہا تھا اس سے ملنے کی خواہش زور پکڑتی جاتی تھی. میری آوارہ نگاہیں ہمیشہ کسی ایسی ہی کہانی کے تعاقب میں رہتی تھیں جو بس ہجر کا مارا تھا. 
وہ بھی تو ہجر ماری تھی جو اس وقت اپنی دھن میں اس کھنڈر میں داخل ہوئی تھی، میں جتنا اس کے بارے میں جانتا تھا وہ بس وہی تھی،‫
اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس اجڑے ہوئے صحن میں یوں اس کا منتظر ہو گا،‫مجھے دیکھ کر اچانک "ہائے ربا" کہتے ہوئے رکی اور فوراً واپس پلٹی، لیکن وہ رک گئی، وہ ہوبہو قاصد مفرور کی آنکھوں میں بسی تصویر کی مانند تھی،
"میں مہمان آیا ہوں یہاں،،،کسی نے مجھے پتہ دیا کہ اس گھر چلے جانا"
"کس نے پتہ دیا ہے،،،"
"نیا نیا اک جاننے والا ہے میرا،،،وہ کہتا ہے یہ اس کا گھر ہے"
"مم،،،،مطلب"
"آپ پریشان نہ ہوں جی،،، میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں،،،اور جس نے مجھے اس گھر کا پتہ دیا ہے وہ بھی بالکل ٹھیک ہے،،،بس پانی پلا دیجیے اگر ہو سکے تو‫‫‫،،،مہمان ہوں نا "
وہ واپس چلی گئی تھی‫.

Composed & Cover : AL-AIN

مہر آباد کے کھنڈر
توصیف احمد
قسط 2

یہ مہر آباد کو جانے والی اکلوتی سڑک کے کنارے کھڑا ایک ڈھابہ سا تھا۔ اور نہ جانے کتنے برس سے بس یہیں کھڑا تھا۔ جس کے باہر بیری کا ایک بوڑھا درخت تھا جس کے نیچے تین چار ٹوٹی پھوٹی چارپائیاں دھری ہوئ تھیں۔ چاچو ہوٹل کے اس مالک کا نام نہ جانے کیا تھا لیکن میں نے اکا دکا لوگوں سے چاچو ہی سنا تھا۔ حالانکہ اس کی عمر چاچا سے کہیں زیادہ تھی۔ 
" یہ مہر آباد کو جانے والی سڑک پہلے بھی یونہی ویران ہوتی تھی بابا"
میں نے پوچھا تو اس نے نگاہ بھر کر دور تلک دیکھا اور پھر میرے پاس آ بیٹھا۔
اس کا لہجہ خالص پنجابی تھا "نہیں جی۔۔۔میں نے اسے ہر روز آہستہ آہستہ ویران ہوتے دیکھا ہے۔۔۔اک بات تو بتائی نہیں تم نے کہ آئے کہاں سےہو"
میں مسکرا دیا "بس یہیں کہیں سے۔۔۔نزدیک شکار کھیلنے آیا تھا۔۔۔اجڑا ہوا مہرآباد دیکھ کر رک گیا"
"چائے صحیح ہے نا؟"
"ہاں بابا۔۔۔آپ کبھی شہر گئے ہو؟"
میں نے پوچھا تو وہ مسکرا دیا "ساجد خان کو جانتے ہو۔۔۔نہیں جانتے۔۔۔میرے بچپن کا یار تھا۔۔۔چھوٹی سی عمر میں وہ شہر چلا گیا تھا۔۔۔شہر سے گاؤں کے راستے پر الٹی سیدھی خبریں سفر کرتی رہتی ہیں۔۔۔ایک دن اس کی بھی خبر آئی کہ کسی کے عشق میں بے موت مارا گیا ہے۔۔۔مرجانے کا مطلب ہے کہ مرنے جوگا ہو گیا نا۔۔۔ایک بار وہ آیا گاؤں تو میری بحث لگ گئی اس کے ساتھ۔۔۔اسے شہر راس آنے والا تھا۔۔۔اور مجھے گاؤں۔۔۔بحث بحث میں شرط لگ گئی نا۔۔۔بس وہ پھر کبھی شہر سے واپس نہیں آیا'
میں نے پوچھا "مطلب آپ شرط ہار گئے"
وہ مسکرا دیا "بڑے ذہین ہو۔۔۔لیکن ایسی باتیں بوجھ جانے والے عقل مند نہیں ہوتے۔۔۔خود کو عقل مند مت سمجھو۔۔۔اچھا۔۔۔ہاں میں شرط ہار گیا کیونکہ میں چلا گیا تھا۔۔۔ڈیڑھ دو سال پہلے گیا تھا۔۔۔جس محلے میں وہ رہتا تھا وہاں اسے سب چاچا ساجو کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان سب کے لہجوں میں عزت ہوتی تھی۔۔۔وہاں جا کر جب اسے دیکھا تو پتہ چلا کہ کمبخت عشق میں واقعی بے موت مارا گیا تھا۔۔۔میں سمجھتا تھا کہ شادی وادی کر لی ہو گی اس نے۔۔۔لیکن وہ اس عشق زادی کو نہیں بھولا تھا۔۔۔تم اس سے ایک بار ضرور ملنا۔۔۔اسے یہ بھی بتانا کہ مہر آباد اب نہیں بچا۔۔۔ کہنے کو کہوں تو حساب کتاب کر کے ایک قاصد کی دعا بچی ہے مہرآباد کی جھولی میں"
میں انجان بن بیٹھا " قاصد کی دعا؟"
وہ ہنس دیا "تو شکار کھیلنے آیا تھا۔۔۔ اجاڑ دیکھ کر رک گیا۔۔۔کیسے ممکن ہے کہ تو مہرآباد کو جانتا ہے اور قاصد کو نہیں"
" جانتا ہوں بابا۔۔۔ جب اپنے دوست سے ملے تھے تو اس سے اس عشق زادی کا پوچھا؟"
وہ اٹھ کر اپنے تھڑے پہ بیٹھ گیا "ہمم۔۔۔۔پوچھا تھا۔۔۔ لگتا ایسے ہے جیسے تو بھی بے موت مارا جا چکا ہے۔۔۔ لیکن لگتا نہیں ہے۔۔۔ ہاں بھئی۔۔۔ پوچھا تھا میں نے اس سے۔۔۔ بلکہ شہر کے اندر جا کر اسے دیکھا بھی تھا۔۔۔ بالکل ساجو کی آنکھوں میں بسی مورت جیسی تھی۔۔۔ میں ہوٹل بند کرنے لگا ہوں۔۔۔ تو رات کہاں گزارے گا؟
میں اٹھنے لگا " بہت جگہیں ہیں بابا۔۔۔ کہیں جگہ نہ ملی تو آجاؤں گا اس بیری کے درخت تلے"
" آجانا۔۔۔ چارپائیاں باہر ہی پڑی ہوتی ہیں۔۔۔آ جانا"
میں ابھی مڑا ہی تھا کہ اس نے آوا ز دی
" مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تو واپس ان ٹوٹی چارپائیوں پہ ضرور آئے گا۔۔۔میں گھر چلاجاتا ہوں۔۔۔ کبھی دکھائوں گا "
میں سڑک پہ آیا اور پھر وہیں کھڑا مہرآباد کی جھولی میں اترتی ہوئی شام دیکھنے لگا۔ 
مجھے پورا یقین تھا جیسے شام کی ہلکی سنہری کرنیں وجود کے اندر چھید کرتی ہوئی دور تلک اتر جاتی تھیں ویسے ہی مہرآباد کا وجود سلگ رہا تھا۔ یہاں بس قاصد کی دعا گردش کرتی رہتی تھی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہاں رک جاؤں لیکن جہاں کھڑا تھا اس سے آگے جانے کی ہمت کھو بیٹھا۔ مجھے کبھی کھنڈرات میں گردش کرتی ہوئی اندیکھی مخلوق سے کبھی ڈر نہیں لگا۔۔۔لیکن مہرآباد کے کھنڈرات میں دعا گردش کرتی تھی۔
آج کا کام کل پر چھوڑ کر میں واپس پلٹ آیا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے واپس ان ٹوٹی ہوئی چارپائیوں پہ ہی آنا تھا۔ میں نے بستے سے بسکٹ کا پیکٹ نکالا اور رات کا شاہی کھانا سمجھ کر دعوت اڑانے لگا۔ اس دعوت میں وہ شامل تھی جسے میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔

Cover & Composed by: AL-AIN

"مہرآباد کے کھنڈر" از توصیف احمد


"مہرآباد کے کھنڈر"
توصیف احمد
قسط نمبر 1

" سوچ لے اک روز خبر جائے گی تیری،،،"
وہ ہنس دیا‫‫. 
"کس کو جائے گی خبر،،،"
ہنسنے کی باری میری تھی لیکن نہ جانے کیوں میں مسکرا بھی نہیں سکا‫.
"اسی کو قاصد صاحب،،،جس کے باغ میں دو عدد لیموں کے پودے لگے ہیں،،، بچوں کے ڈر سے سارا دن باغ پہ نظرے گاڑے رکھتی ہے،،،اس کو قاصد صاحب جس کے صحن میں ایک عدد کیکر کا درخت ہے،،،صبح سویرے آنگن سے کیکر کے پھولوں کی صفائی کرتے ہوئے جسے بس تو یاد رہتا ہے قاصد صاحب،،،"
ایک پرانی چپ اس کے چہرے پہ قبضہ کر بیٹھی تھی. اب میں مسکرا دیا.
"ہو گئی نہ ہنسی گم قاصد صاحب،،،ہنسی گم ہو جاتی ہے،،،پھر کہتا ہوں کہ ایک دن اسے خبر جائے گی کہ پولیس مقابلے میں مشہور مفرور قاصد جان صاحب گزر گئے،،،بلکہ ہلاک ہو گیا،،، مارنے والے افسر کے کاندھے پہ ایک پھول کا بوجھ اور بڑھ گیا"
وہ کہنے لگا "نہیں شاعر صاحب،،، اسے یہ خبر میں نہیں جانے دوں گا،،، ویسے بھی میں نے دشمن کو مارے بغیر پولیس مقابلہ نہیں کرنا،،،قسم کھائی ہے میں نے،،،"
میں ہنس دیا "چل او بھئی،،، کبھی جیل جا کر تو دیکھ،،، تیری جیسی قسمیں وہاں رلتی پھرتی ہیں،،،میری بات مان،،،کسی ایسی جگہ دور چلا جا جہاں کم از کم کیکر کے پیلے پھولوں کی خوشبو نہ پہنچے،،، ایک بات تو طے ہے قاصد میاں،،، اب تو اس کے سامنے نہیں جا سکتا،،، ظاہر ہے چار قتل کرکے تو کوئی وزیر وزور تو ہے نہیں کہ کھلے عام پھرتا رہے،،، تو ٹھہرا مہرآباد کے غریب چرواہے کا پتر،،، تیرا بچنا ناممکن ہے اس کیس سے،،، اگلوں کے پاس نوٹ ہیں نوٹ،،، تیرے پاس تو،،،،کیکر کا اک پھول بھی نہیں ہے،،،"
وہ اٹھ کر جانے لگا تو اچانک مڑا.
"میں نے مان لیا ہے اب میں اسے کبھی نہیں دیکھ سکوں گا،،،لیکن شاعر صاحب ایک بات اب تو بھی مان جا،،، چار پہ بس نہیں کرنی میں نے،،، میری گلی میں جس جس کمینے کا پیر پڑا ہے،،،اس کے پیر کاٹنے تک بس نہیں کرنی میں نے،،، چار کے بعد تین اور ہیں،،،پھر بھانویں جیل ہوئے یا پولیس مقابلہ،،،خبر جائے گی پھر،،، دشمنوں کو مار کر مرا ہوں"
وہ چلا گیا تھا‫،
اس کا نام قاصد جمیل جان تھا. مہرآباد کی چھوٹی سی بستی کے ایک کونے میں ایک بغیر دروازے کا گھر تھا‫. لیکن اب تو وہ کھنڈر بن چکا تھا جہاں اب کبھی کبھی گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر میں گرم لو کے تھپیڑے سہتی ہوئی "دعا" داخل ہوتی تھی‫.
عارض پہ ہجر کی لالی سجائے وہ ایک بار صحن کا طواف کرتی اور پھر آنکھوں میں خالی پن بھرے واپس لوٹ جاتی. اپنے گھر سے نکلتے وقت اسے مکمل یقین ہوتا تھا کہ ان کھنڈروں میں قاصد جمیل نہیں ہوتا...لیکن کہتے ہیں ہجر آخر بیماری ہی تو ہے جو رگوں میں سفر کرتی ہے تو وجود مسافت کا عادی ہو جاتا ہے. وہ بھی شاید اس مسافت کی عادی ہو چکی تھی.
بلکہ وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ بیماری نے اسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا‫.
میں اسے دور تلک جاتا ہوا دیکھتا رہا.اس نے جانا بھی کہاں تھا،لوٹ کر انہی چھوٹی بڑی ٹیکریوں میں ہی آنا تھا. وہ پھر کسی دشمن کی خبر لینے گیا تھا.
سورج بس ٹیکریوں کی اوٹ میں چھپنے کےلیے بے تاب تھا. پہاڑیوں سے سرمئی کرنیں اترتیں اور نشیبی جگہوں پہ بکھر جاتیں. میں نے کاغذ موڑ توڑ کر جیب میں ڈالے اور اٹھنے لگا.
زندگی کا بس یہی وطیرہ ہے کہ پہاڑیوں سے سرمئی کرنوں کی طرح اترتی ہے اور پھر...بکھر جاتی ہے. میں چند دن پہلے ہی اس بات کو سمجھ گیا تھا جب میں نے اس ہجر زدہ "دعا" کو دیکھا تھا. مہرآباد کے سب سے خوبصورت کھنڈرات میں سے ایک وہ تھی. کسی رت میں وہ ایک مکمل گاؤں تھی...ہرا بھرا گاؤں...!

(جاری ہے)

Designed & Composed by: AL-AIN العین