![]() |
| Meher Abad kay Khandar |
مہر آباد کے کھنڈر
توصیف احمد
توصیف احمد
قسط نمبر 4
رات وقت کا زہر پیتے ہوئے تقریباً بوڑھی ہو چکی تھی...!
اور میں وہیں قاصد کے اجڑے ہوئے آنگن میں بیٹھا تھا. مغرب کی اذان کے بعد ایک بوڑھا شخص مجھ سے ملنے آیا تھا. وہ دعا کا باپ تھا...!
دعا نے اسے بتایا تھا کہ یہاں اس آنگن میں کوئی مہمان آکر ٹھہر گیا ہے.
"لے باؤ... روٹی پانی لے کر آیا ہوں... ویسے اس گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے میرا،،،لیکن مہمان تو بس مہمان ہوتا ہے نا،،،!"
" ارے بابا خواہ مخواہ تکلف کیا...مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ویران ہو گیا ہو گا...میں بس ایسے ہی پھرتا رہتا ہوں"
وہ مسکرا دیا " ککھ نہیں رہا جی ادھر... کہنے کو تو میرا ہمسایہ ہے لیکن ہے دشمن... زندہ ہے ابھی...لوگ اسے قاصد مفرور کے نام سے جانتے ہیں..."
"لیکن بابا...دشمنی آخر کس کام کی ہے...بچا تو اب مہر آباد میں ککھ نہیں ہے..."
اس نے قہقہہ لگایا "اجنبی ہو نا... اسی لیے کہتے ہو کہ ککھ نہیں رہا...حالانکہ کوئی اکھ بھر کر دیکھے تو سہی... مہرآباد اب بھی آباد ہے اسی طرح...دشمنی ہے بھئی... میں اسے اچھا نہیں سمجھتا... لیکن اس نے جو حشر مہروں کا کیا ہے اس کی اسے داد دیتا ہوں... مہر حکیم سمجھتا تھا کہ اس کے نام سے پہلے مہر لگا ہے تو مہرآباد اس کا ہے...حالانکہ مہرآباد بسانے والے کا نام مہر خان تھا...یہ کسی خاص قوم کا نہیں تھا...بس کچھ ناسمجھ لوگ آگئے اور بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا..."
"مہر حکیم سے آپ کا لینا دینا تھا؟"
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا" میرا کیوں لینا دینا ہو گا بھلا... چل روٹی ٹکر کھا... بڑے ثواب کا موقع دیا ہے مسافرا... خالی برتن میرے دروازے پہ چھوڑ جانا بے شک... کوشش کرو کہ یہاں مت رہو... ویرانے انسانوں کےلیے ہوتے ہیں... جن بھوتوں کے لیے سمجھو ویرانہ تو شہر جیسا ہوتا ہے نا..."
میں نے کھانا ختم کیا اور خالی برتن اس کے دروازے پہ چھوڑ دیے.
میں نے دعا کے سامنے قاصد مفرور کا نام لیا تھا. مجھے یقین تھا وہ دوبارہ آئے گی.وہی ہوا...قاصد مفرور کی آنکھوں میں بسنے والی مورت دوبارہ آگئی.
"بڑا ہنستا بستا سا علاقہ تھا،،،وہ آوارہ لوفر تھا،،، مہر حکیم کے ہاں غنڈہ گردی کی ملازمت کرتا تھا،،، دیکھو تو ہے نا حیران ہونے والی بات،،، مجھے کسی نے بتایا بھی تھا کہ شہر میں غنڈوں کی بھرتیاں بھی ہوتی ہیں،،،شہر کے سارے رواج ادھر بھی آ گئے ہیں،،،"
"وہ یاد آتا ہے بہت؟"
میں نے کہا تو وہ ہنس دی. جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو.
"ہنسنے والی بات کی ہے تم نے،،،چائے پیو گے،،، "
"تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھ سے؟....یعنی رات کے اس وقت تم اکیلی یہاں ہو،،،"
وہ مسکرائی اور پھر اس نے آنچل کے نیچے سے پستول باہر نکال لیا.
پھر کہنے لگی"اب تم ذرا ڈرانے والی کوئی حرکت تو کرو...!"
"بالکل قاصد پہ گئی ہو"
"نہیں... وہ مجھ پہ گیا ہے..."
"بیٹھو یہاں مہمان جی... چائے لاتی ہوں میں"
وہ گئی تو میں اس کی دیدہ دلیری پہ رشک کرنے لگا. یہ بہادری اسے وراثت میں ملی تھی. قاصد کی ساری جائیداد کی وہ اکلوتی وارث تھی. اورقاصد کی جائیداد میں ہجر کے علاوہ بہادری تھی.
میں قاصد کے متعلق سوچنے لگا کہ وہ مہر حکیم کا غنڈہ تھا...تو دعا کی دعاؤں میں کیسے آگیا....میں کہانی کھوجتے ہوئے ہمیشہ بے خوف ہو جاتا تھا لیکن دعا سے کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہیں تھا....!
وہ کچھ دیر بعد چائے لے آئی.
"پیو گے تو گھر کی بھول جاؤ گے...!"
اس نے کہا تو میں مسکرا دیا "گھر کی پی کر کوئی گھر کی نہیں بھولتا پاگل لڑکی...اک بات تو بتاؤ یہ پستول چلانی کس نے سکھائی تمہیں؟"
"شاید دو سال پہلے...جب مہر حکیم نے حملہ کروایا تھا شاداب پور کے دل جان مفرور پر... اس وقت..."
"شاداب پور کا دل جان مفرور...اور مہر آباد کا مہر حکیم... یہ کیسا تعلق ہوا بھلا"
وہ مسکرا دی" شہر کے رہنے والے تھوڑے کم سمجھدار ہوتے ہیں بھائی جی... تم بھی ویسے ہی ہو...شاداب پور کے دل جان کے لیے مہرآباد ہی سب کچھ تھا...اس کا دل رہتا تھا یہاں...مطلب نظیمہ... وہ رہتی تھی..."
"بس اب تہہ تک پہنچ گیا میں... ہمم... تو پھر؟"
"تو پھر آپ اجنبی ہو... باتیں اگلوا رہے ہو مجھ سے..."
"تمہیں اگر لگتا ہے کہ میں باتیں اگلوا رہا ہوں تو مت بتاؤ نا...لیکن میں قاصد سے ملوں گا تو پوچھ لوں گا کہ دل جان کون تھا بھئی...ظاہر ہے مفرور ہے تو اسے جانتا تو ہو گا نا..."
وہ اٹھی اور جانے لگی "اس سے ملو تو یہ بھی پوچھنا کہ کھانا کھاتا ہے... بد نصیب کو بھنڈیاں بہت پسند تھیں"
میں مسکرا دیا " بدنصیب مت کہو اسے...اس کے نصیب میں عمر بھر کا ہجر ہے...ہاں ویسے بدنصیب کے نصیب میں یہ چائے نہیں ہے..."
"میں چلتی ہوں بھائی... ناشتہ کرو گے صبح یا چلے جاؤ گے؟"
"ہمم... پتہ نہیں...لیکن لگتا ہے ناشتہ نہیں کروں گا..."
وہ جاتے جاتے رکی. شاید کچھ کہنا چاہتی تھی...لیکن وہ کہہ نہیں سکی اور چلی گئی.
مہر حکیم اور شاداب پور کے دل جان مفرور کا تعلق بہت پرانا تھا. دونوں کی عمروں میں محض چند گھنٹوں کا ہی فرق تھا. لیکن دوڑ دلجان کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی تھی.
دونوں کے درمیان دشمنی زمین کی تھی.مہر حکیم نے دھوکے سے دلجان کو پھنسایا اور وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا.مہر حکیم کے کارندے جب اس کے دروازے پہ تھے تو اس وقت وہ تھانے میں تھا۔ وہیں اسے خبر ملی کہ مہر حکیم کے کارندوں نے اس کی ماں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ وہ یہ غم اس لیے سہہ گیا تھا کیو نکہ وہ بس غم سہہ جاتا تھا۔
اور میں وہیں قاصد کے اجڑے ہوئے آنگن میں بیٹھا تھا. مغرب کی اذان کے بعد ایک بوڑھا شخص مجھ سے ملنے آیا تھا. وہ دعا کا باپ تھا...!
دعا نے اسے بتایا تھا کہ یہاں اس آنگن میں کوئی مہمان آکر ٹھہر گیا ہے.
"لے باؤ... روٹی پانی لے کر آیا ہوں... ویسے اس گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے میرا،،،لیکن مہمان تو بس مہمان ہوتا ہے نا،،،!"
" ارے بابا خواہ مخواہ تکلف کیا...مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ویران ہو گیا ہو گا...میں بس ایسے ہی پھرتا رہتا ہوں"
وہ مسکرا دیا " ککھ نہیں رہا جی ادھر... کہنے کو تو میرا ہمسایہ ہے لیکن ہے دشمن... زندہ ہے ابھی...لوگ اسے قاصد مفرور کے نام سے جانتے ہیں..."
"لیکن بابا...دشمنی آخر کس کام کی ہے...بچا تو اب مہر آباد میں ککھ نہیں ہے..."
اس نے قہقہہ لگایا "اجنبی ہو نا... اسی لیے کہتے ہو کہ ککھ نہیں رہا...حالانکہ کوئی اکھ بھر کر دیکھے تو سہی... مہرآباد اب بھی آباد ہے اسی طرح...دشمنی ہے بھئی... میں اسے اچھا نہیں سمجھتا... لیکن اس نے جو حشر مہروں کا کیا ہے اس کی اسے داد دیتا ہوں... مہر حکیم سمجھتا تھا کہ اس کے نام سے پہلے مہر لگا ہے تو مہرآباد اس کا ہے...حالانکہ مہرآباد بسانے والے کا نام مہر خان تھا...یہ کسی خاص قوم کا نہیں تھا...بس کچھ ناسمجھ لوگ آگئے اور بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا..."
"مہر حکیم سے آپ کا لینا دینا تھا؟"
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا" میرا کیوں لینا دینا ہو گا بھلا... چل روٹی ٹکر کھا... بڑے ثواب کا موقع دیا ہے مسافرا... خالی برتن میرے دروازے پہ چھوڑ جانا بے شک... کوشش کرو کہ یہاں مت رہو... ویرانے انسانوں کےلیے ہوتے ہیں... جن بھوتوں کے لیے سمجھو ویرانہ تو شہر جیسا ہوتا ہے نا..."
میں نے کھانا ختم کیا اور خالی برتن اس کے دروازے پہ چھوڑ دیے.
میں نے دعا کے سامنے قاصد مفرور کا نام لیا تھا. مجھے یقین تھا وہ دوبارہ آئے گی.وہی ہوا...قاصد مفرور کی آنکھوں میں بسنے والی مورت دوبارہ آگئی.
"بڑا ہنستا بستا سا علاقہ تھا،،،وہ آوارہ لوفر تھا،،، مہر حکیم کے ہاں غنڈہ گردی کی ملازمت کرتا تھا،،، دیکھو تو ہے نا حیران ہونے والی بات،،، مجھے کسی نے بتایا بھی تھا کہ شہر میں غنڈوں کی بھرتیاں بھی ہوتی ہیں،،،شہر کے سارے رواج ادھر بھی آ گئے ہیں،،،"
"وہ یاد آتا ہے بہت؟"
میں نے کہا تو وہ ہنس دی. جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو.
"ہنسنے والی بات کی ہے تم نے،،،چائے پیو گے،،، "
"تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھ سے؟....یعنی رات کے اس وقت تم اکیلی یہاں ہو،،،"
وہ مسکرائی اور پھر اس نے آنچل کے نیچے سے پستول باہر نکال لیا.
پھر کہنے لگی"اب تم ذرا ڈرانے والی کوئی حرکت تو کرو...!"
"بالکل قاصد پہ گئی ہو"
"نہیں... وہ مجھ پہ گیا ہے..."
"بیٹھو یہاں مہمان جی... چائے لاتی ہوں میں"
وہ گئی تو میں اس کی دیدہ دلیری پہ رشک کرنے لگا. یہ بہادری اسے وراثت میں ملی تھی. قاصد کی ساری جائیداد کی وہ اکلوتی وارث تھی. اورقاصد کی جائیداد میں ہجر کے علاوہ بہادری تھی.
میں قاصد کے متعلق سوچنے لگا کہ وہ مہر حکیم کا غنڈہ تھا...تو دعا کی دعاؤں میں کیسے آگیا....میں کہانی کھوجتے ہوئے ہمیشہ بے خوف ہو جاتا تھا لیکن دعا سے کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہیں تھا....!
وہ کچھ دیر بعد چائے لے آئی.
"پیو گے تو گھر کی بھول جاؤ گے...!"
اس نے کہا تو میں مسکرا دیا "گھر کی پی کر کوئی گھر کی نہیں بھولتا پاگل لڑکی...اک بات تو بتاؤ یہ پستول چلانی کس نے سکھائی تمہیں؟"
"شاید دو سال پہلے...جب مہر حکیم نے حملہ کروایا تھا شاداب پور کے دل جان مفرور پر... اس وقت..."
"شاداب پور کا دل جان مفرور...اور مہر آباد کا مہر حکیم... یہ کیسا تعلق ہوا بھلا"
وہ مسکرا دی" شہر کے رہنے والے تھوڑے کم سمجھدار ہوتے ہیں بھائی جی... تم بھی ویسے ہی ہو...شاداب پور کے دل جان کے لیے مہرآباد ہی سب کچھ تھا...اس کا دل رہتا تھا یہاں...مطلب نظیمہ... وہ رہتی تھی..."
"بس اب تہہ تک پہنچ گیا میں... ہمم... تو پھر؟"
"تو پھر آپ اجنبی ہو... باتیں اگلوا رہے ہو مجھ سے..."
"تمہیں اگر لگتا ہے کہ میں باتیں اگلوا رہا ہوں تو مت بتاؤ نا...لیکن میں قاصد سے ملوں گا تو پوچھ لوں گا کہ دل جان کون تھا بھئی...ظاہر ہے مفرور ہے تو اسے جانتا تو ہو گا نا..."
وہ اٹھی اور جانے لگی "اس سے ملو تو یہ بھی پوچھنا کہ کھانا کھاتا ہے... بد نصیب کو بھنڈیاں بہت پسند تھیں"
میں مسکرا دیا " بدنصیب مت کہو اسے...اس کے نصیب میں عمر بھر کا ہجر ہے...ہاں ویسے بدنصیب کے نصیب میں یہ چائے نہیں ہے..."
"میں چلتی ہوں بھائی... ناشتہ کرو گے صبح یا چلے جاؤ گے؟"
"ہمم... پتہ نہیں...لیکن لگتا ہے ناشتہ نہیں کروں گا..."
وہ جاتے جاتے رکی. شاید کچھ کہنا چاہتی تھی...لیکن وہ کہہ نہیں سکی اور چلی گئی.
مہر حکیم اور شاداب پور کے دل جان مفرور کا تعلق بہت پرانا تھا. دونوں کی عمروں میں محض چند گھنٹوں کا ہی فرق تھا. لیکن دوڑ دلجان کو ہمیشہ تروتازہ رکھتی تھی.
دونوں کے درمیان دشمنی زمین کی تھی.مہر حکیم نے دھوکے سے دلجان کو پھنسایا اور وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا.مہر حکیم کے کارندے جب اس کے دروازے پہ تھے تو اس وقت وہ تھانے میں تھا۔ وہیں اسے خبر ملی کہ مہر حکیم کے کارندوں نے اس کی ماں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ وہ یہ غم اس لیے سہہ گیا تھا کیو نکہ وہ بس غم سہہ جاتا تھا۔
مہر حکیم طاقت کے نشے میں اس سے ملنے تھانے چلا آیا جہاں وہ اس کی بے بسی پہ ہنستا رہا تھا۔ دلجان نے اس سے وہیں معافی مانگی اور رہا کر دینے کا کہا۔ اس کے ساتھ ہی زمین اسے دے دی۔ بس یہی مہر حکیم کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ دلجان کو سمجھ نہیں سکا۔۔۔!
رات بیت چکی تھی۔۔۔!
میں نے دعا کو کہا تھا کہ میں ناشتہ یہاں نہیں کروں گا۔ فجر کی اذان میں ابھی کافی وقت تھا۔ میں بجھی ہوئی شمع کی مانند جیسے آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی کہانی میرے اندر دم توڑنے لگی تھی۔ لیکن۔۔۔میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔ میں باہر نکلا۔۔میرا رخ شاہو بابا کے ہوٹل کی جانب تھا۔
جاری ہے
cover & composed by: Al-AIN

No comments:
Post a Comment