مہر آباد کے کھنڈر
توصیف احمد
قسط نمبر 5
"میں تھک گیا ہوں بابا.."
میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پہ لیٹا تو سکون کی لہریں وجود میں گردش کرنے لگی تھیں.
بابا شا ہو نے ایک قہقہہ لگایا اور میرے اوپر جھک گیا...!
"اوئے مسافرا...پہلے یہ تو بتا کہ آیا کہاں سے ہے... رات کہاں گزاری ہے... تجھے ڈر نہیں لگتا یہاں... اوئے مہرآباد کے جنوں کا پتہ نہیں ہے تجھے..."
میں ہلکا سا مسکرایا "ناشتہ ملے گا... پراٹھا بچا ہوا ہے کوئی..."
وہ واپس مڑا تو میں نے آواز دی "مہرآباد کے جنوں کو میرا پتہ نہیں ہے..."
ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی. بیری کے درخت پہ چڑیوں کی آمدورفت جاری تھی. چڑیوں کی چوں چوں میں کبھی کبھی کسی اور پرندے کی آواز بھی شامل ہو جاتی تھی. لیکن محسوس یہی ہو رہا تھا جیسے اس ہوٹل کے ارد گرد....دور تلک خاموشی چھا گئی تھی. میں یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتا تھا...!
"لے بھئی...کیک رس کھا لے... پراٹھا تو اب ہے نہیں... نصیب نصیب کی بات ہے پترا...کسی کے نصیب میں پراٹھا اور کسی کے کیک رس...کبھی عشق معشوقی کی ہے کیا؟"
میرے حلق سے ایک قہقہہ وا ہوا "ہیں... عشق معشوقی... یہ کیا ہے... ادھر شہر میں اسے فلرٹ کہتے ہیں... یا پھر دوستی... یا پھر وہ انگریزی والا حرف ہے نا... لو...وہ... ویسے ادھر مہرآباد میں عشق معشوقی ہی کہتے ہیں؟"
وہ مسکرا دیا "کسی سیانے کی اولاد ہے پترا... بڑی بات گول کی ہے تم نے... اسے ہی کہتے ہیں جو تو سمجھا ہے... ادھر وہ دلجان تھا... عشق معشوقی میں اس نے مہروں کا جینا حرام کر دیا تھا..."
میں نے کہا "آپ کو پتہ نہیں ہے چاچا... اسے محبت کہتے ہیں"
وہ حیران ہوا "اچھا... تو محبت کا پتہ ہے تجھے... اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ دلجان کا بھی پتہ ہے..."
"ہاں... پتہ چلا تھا...بد قسمت کے ہاتھ کی چائے میں بڑا ذائقہ ہے بابا..."
"میں بڑا پڑھا لکھا سمجھا تھا تجھے...نکلا نا نرا ان پڑھ... بدقسمت کہہ کر جدائی شودی کی بے عزتی مت کر... برا لگے تو سر پہ چڑھ جاتی ہے...بس یہی بات ہے نا...میں سمجھ گیا ہوں کہ تو نے رات کہاں گزاری اور دلجان کا پتہ کہاں سے لے کرآیا ہے..."
"یہ قاصد مہر حکیم سے کب نکلا..."
حوالات سے نکل کر دلجان کچھ عرصہ تو روپوش رہا...پھر ایک دن اس نے مہر حکیم کے منشی کا راستہ روک لیا.قاصد مفرور منشی شیر کے ساتھ ہی تھا.اس سے پہلے اس نے دلجان کا نام سنا تھا لیکن یوں پالا نہیں پڑا تھا. دلجان تو چلا گیا...!
لیکن وہ دلجان پہ حیران تھا جو مہر حکیم کی ناک تک آن پہنچا تھا.لوگوں کے خیال میں دلجان کی ساری مردانگی بس اس دن حوالات میں ختم ہو گئی تھی جب اس نے مہر حکیم کے پیروں میں گر کر معافی مانگی تھی. قاصد کے نقطہ نظر سے بھی مہر حکیم نے بہت بڑی بھول کر دی تھی.
منشی شیر نے جب مہر حکیم کو اس تمام واقعے کی روداد سنائی تو مہر حکیم نے اپنے خاص کارندے خان محمد کو فوراً دلجان کا قتل کرنے کو کہہ دیا.
لیکن یہ مہر حکیم کی بھول تھی... کیونکہ دلجان کے پاس اب کھونے کےلیے محض اس کے وجود کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا.دوسری جانب مہر حکیم نے ابھی تک کچھ نہیں کھویا تھا. خان محمد کی لاش واپس آئی تو مہر حکیم نے ہمیشہ کی طرح پولیس کا سہارا لیا. پولیس نے دلجان کے نام کے آگے مفرور لگایا اور اس کے پیچھے ہی ہو لی. جا بجا چھاپے...لیکن جواب ندارد...!
"قاصد دلجان کے ہتھے کیسے چڑھا بابا...."
"ہتھے تو اس کے ہی چڑھنا تھا نا پاگل...ورنہ مہر حکیم نے اسے قتل کروا دینا تھا"
میں حیرانی سے بولا "قتل.....؟؟؟"
وہ مسکرایا "ظاہر ہے بھئی وہ چھپ چھپ کر دلجان سے ملاقات کرے گا تو...مہر حکیم اسے ریوڑیاں تو نہیں بخشے گا نا..دلجان کی اکھ لڑ گئی تھی پتر"
شاہو بابا کا مطلب تھا کہ دلجان اپنا دل نظیمہ کے دروازے پہ چھوڑ آیا تھا. ایک دن رات کے کسی پہر قاصد نے نظیمہ کے در پر کسی کو جھکا ہوا دیکھا. وہ رات کے اس وقت مہر حکیم کی حویلی سے واپس آ رہا تھا.نزدیک جا کر دیکھا تو علم میں اضافہ ہوا کہ محبت ہو جائے تو محبوب کے در پہ جھک جانا محبت ہی ہے...!
وہ دلجان تھا...اسے جب علم ہوا تو اس نے بندوق سیدھی کر لی...! وہ نظیمہ کے در کی خاک اٹھا کر ماتھے پہ مل رہا تھا.وہیں اسے علم ہوا کہ محبوب کے در پہ آیا ہوا عاشق دراصل موت کے دروازے پہ ہوتا ہے...!
اسی دن سے وہ دونوں ساتھ مل گئے...!
قاصد کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا...جبکہ گاؤں کے کونے پہ ہر روز شام سے جھگڑنے والی دعا کا سفر فی الحال شروع نہیں ہوا تھا...!
" لے بھئی مسافرا...اج تجھے میں نے مہرآباد کی چنگی بھلی تاریخ بتا دی ہے... اتنے پہ گزارا ہو جاوے گا نا تیرا؟"
"ہاں... ایک دن نکل جائے گا...میں کل ناشتہ ادھر ہی کروں گا...میرے حصے کا پراٹھا بس پڑا رہے... بھلے ٹھنڈا ہو جائے...میں آکر کھا لوں گا بابا...."
ہوا کے نرم جھونکوں میں بیری کے تازہ بوبیری کے تازہ بوروں کی خوشبو بھی شامل تھی. جیسے دور کہیں کسی بیری سے بور ٹوٹ ٹوٹ کر اپنی خوشبو ہواؤں میں شامل کیے جا رہے تھے. میری معلومات کے مطابق یہ وہی موسم تھا...جب قاصد اور دعا کے درمیان سفر شروع ہوا تھا...!
(جاری ہے)
Composed and Cover by Al-Ain
No comments:
Post a Comment